ï·º
جب چھڑا تذکرہ میرے سرکار کا میرے دل میں
نہاں پھول کھلنے لگے
آسماں سے چلیں نور کی ڈالیاں پھر جہاں در جہاںپھول کھلنے لگے
ایک پر نور قندیل Ú†Ù…Ú©ÛŒ ہے پھر میرے اØ+ساس میں میرے جذبات میں
آنکھ پرنم ہوئی ہونٹ تپنے Ù„Ú¯Û’ روØ+ میں جاوداںپھول کھلنے Ù„Ú¯Û’
ان Ú©ÛŒ رØ+مت سے پر نور سینہ ہوا مجھ گنہ گار کا دل مدینہ ہوا
دھڑکنیں مل گئیں میرے افکار کو سنگ کے درمیاں پھول کھلنے لگے
آپ آئے تو تہذیب روشن ہوئی اور تمدن میں اک انقلاب آگیا
آدمیت کو انسانیت مل گئی گلستاں گلستاں پھول کھلنے لگے
آس تاریکیوں میں بھٹکتا رہا، شکر صد شکر اے دامن مصطفےٰ!
تو ملا توقلم کو ملی روشنی اس کی زیر زباںپھول کھلنے لگے
ï·º